سائنس دانوں نے خونی ہیضے کا سبب بننے والے ایبولا وائرس کے خلاف ایک ویکسین تیار کر لی ہے جس کے چوہوں پر کیے گئے تجربات کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔ اس ویکسین سے خونی ہیضے کے مہلک مرض پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
ایبولا وائرس سب سے پہلے 1976ء میں دریافت ہوا تھا۔ اس کے نام کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ افریقی ملک زائر اور موجودہ کانگو کے ایبولا نامی دریا سے اخذ کیا گیا ہے۔ ایبولا وائرس اتنا مہلک ہے کہ اس کے شکار 90 فیصد سے زائد افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ پہلی بار ایسی ویکسین تیار کی گئی ہے جو طویل عرصے تک مؤثر ثابت ہو سکتی ہے اور اسے کامیابی سے محفوظ بھی کیا جا سکتا ہے۔ ایبولا جسمانی رطوبتوں کے ذریعے منتقل ہوتا ہے اور ہوا میں بھی موجود رہ سکتا ہے۔ اس کی علامات میں متلی، قے، جسم کے اندر خون بہنا اور اعضاء کا کام چھوڑ دینا شامل ہیں۔ اگرچہ ہر سال بہت کم لوگ اس موذی وائرس کا شکار ہوتے ہیں تاہم اس کے اثرات اتنے تیز اور تباہ کن ہوتے ہیں کہ اس بات کا خدشہ ہے کہ اسے حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر دہشت گردی کی غرض سے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ماضی میں تیار کی جانے والی تمام ویکسینوں میں انسانی جسم میں ٹیکے کے ذریعے اس وائرس کے مفلوج شدہ اجزاء داخل کیے جاتے تھے۔ تاہم ان ویکسینوں کو طویل عرصے کے لیے محفوظ کرنے کے نتیجے میں وائرس کو نقصان پہنچتا تھا اور ویکسین کی طاقت ختم ہو جاتی تھی۔ نئی ویکسین میں ایک سنتھیٹک وائرس پروٹین شامل کی گئی ہے جو انسانی جسم کے مدافعتی نظام کو ایبولا وائرس کو بہتر طور پر پہچاننے کے قابل بناتی ہے اور طویل عرصے تک محفوظ کرنے کے لحاظ سے کہیں زیادہ مستحکم ہے۔ ایبولا وائرس سب سے پہلے 1976 میں افریقی ملک زائر اور موجودہ کانگو میں دریافت ہوا تھاویکسین کی تیاری میں حصہ لینے والے ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے بائیو ٹیکنالوجسٹ چارلس آرنٹزن کا کہنا ہے، ’’چوہوں کو اس وائرس کی مہلک قسم کے ٹیکے لگائے گئے اور ویکسین کے باعث ان میں سے 80 فیصد محفوظ رہے۔‘‘ انہوں نے کہا اگلے مرحلے میں ایبولا کی اس قسم پر تجربات کیے جائیں گے جو انسانوں کو متاثر کرتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 1976ء سے لے کر اب تک ایک ہزار آٹھ سو پچاس افراد ایبولا کے شکار ہو چکے ہیں۔ انسانوں کے علاوہ یہ بیماری افریقی چمگادڑوں اور گوریلوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ |
0 comments:
Post a Comment